میں نے اپنی
زندگی کے کچھ دلچسپ موضوعات پر لکھنا شروع کیا ہے۔ ان میں سے سب سے پہلا موضوع ہے
"شادی"
میں نے کافی سال
سے لکھنے لکھانے کو چھوڑا ہوا تھاکیونکہ میری شادی ہوگئی تھی۔ ۲۰۱۸ میں جب کافی عرصہ بعد چلہ لگانے جماعت میں گیا اور
مجھ سے علماء کے امیر صاحب نے پوچھا کہ ۲۰۱۳ میں سال لگانے کے بعد پانچ سال تک چلہ
کیوں نہیں لگا یا تو ان کو بھی میں نے یہی عذر بتا یا تھا کہ جی میری شادی ہوگئی
تھی۔آپ سوچیں گے کہ شادی بھی کوئی وجہ ہے
جس کو بندہ عذر کے طورپر بتا سکے ؟ تو یقینا جس نے اتنا لمبا عرصہ شادی ہونے کا
انتظار کیا ہو تو اسے اس بات کا یقین آنے کےلئے بھی کچھ وقت درکار ہے کہ جی واقعی
میری شادی ہوگئی ہے ۔
بچپن سے کچھ لوگ
ڈاکٹر بننے کی فکر میں ہوتے ہیں کچھ انجینئر بننے کی فکر سوار کئے ہوتے ہیں جبکہ
میری قبیل کے لوگ بس دولہابننا چاہتے ہیں
۔ جن کا خواب ، عمل ، اور مستقبل کے بارے
میں جواب صرف "شادی "ہی ہوتا ہے۔
میں نے لکھنا اس
لئے بھی چھوڑ دیا تھا کیوں کہ بندہ نے اپنے تئیں "اصلاح معاشرہ " اور "تحفظ
شباب جواناں "کے عنوان پر۲۰۱۱،۱۲میں کچھ بلاگز لکھے جس میں نیٹ کی تباہ کاریوں اور
جلد شادی کی ترغیب کے عنوان سے بہت کچھ لکھا ، پھر اسی موضوع پر جمعہ کی
تقریریں بھی جھاڑ دیں ۔ گویا کہ ہم نے اپنے
زعم میں "تحریک ِ تزویج ِ کنواریاں " کے سربراہ کے فرائض انجام دینا
شروع کردئیے تھے۔جس پر ہمارے محلے کے ایک ساتھی
بھائی محمداقبال مرحوم صاحب نے والد صاحب کو کہا کہ باقی سب باتیں چھوڑو
مولوی کی ( یعنی راقم موصوف کی) شادی جلدی کرادو۔ جس پر ہمیں اتنی شرمندگی
محسوس ہوئی کہ اصلاح معاشرہ کا عنوان ہی چھوڑدیا۔ اور اپنی شادی نہ ہونے تک دوبارہ
کسی دوسرے نوجوان کی شادی کروانے کا خیال بھی ترک کردیا۔
تحریک تزویج ِ
کنواریاں دراصل ہمارے ایک ساتھی محمدآصف
بوزدار مرحوم کی ۲۰۰۱ ء کی تحریک تھی ۔ بھائی آصف شادی شدہ ہوتے ہوئے
درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نوکوٹ میں مفتی شجاع الرحمان صاحب کے مدرسہ انعام العلوم میں میرے ساتھ ہی داخل
ہوئے تھے ۔انہوں نے باقی طلباء کی شادیاں
کروانے کوا پنا مشن بنا لیا، وہ طلباء کو بھی شادی کی ترغیب دیتے اور ان کے والدین
کو بھی۔ اس وقت میری عمر ۱۵سال تھی ، انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی میری شادی
کروانے کی ترغیب دی۔ میرے والد صاحب سمجھے شاید میں نے ان کے ذریعے کہلوایا ہے
۔مگر شادی بھی قسمت کا کھیل ہے۔(میرے دوست بھائی آصف مرحوم کی تحریک سے متاثر
ہوکر کیا حقیقتا کسی کی شادی ہوئی بھی یا
نہیں ، صحیح یاد نہیں لیکن میرے خیال میں ہمارے سینئر ساتھی بھائی عابد پٹھان صاحب
جو کہ اب مدرسہ انعام العلوم میں ہی مدرس ہیں ساتھ ہی نوکوٹ کے الفوز اسکول کو بھی
سنبھالتے ہیں، نے انہی کی ترغیب پر اسی زمانے میں شادی کرلی تھی۔
میری شادی کی
فکر مجھ سمیت میری ساری فیملی کو تھی اور سب ہی میری شادی کروانا چاہتے تھے ۲۰۰۶ سے تو میری شادی نے لڑھکنا شروع کردیا تھا
جبکہ ۲۰۰۹ میں تو شادی گویا کہ پکی ہوگئی تھی اور دورہ سے فراغت پر ولیمہ اور درسِ
نظامی کی تکمیل کے لئے ایک ہی دعوت ہونے
کا یقین تھا ۔ مگر پھر ہماری شادی الٹی لڑھکنے لگ گئی تو ہم نے کہاچلو جب تک شادی
ہوگی تخصص میں ایک سال پڑھ لیتے ہیں ، پھر بھی شادی نہ ہونے پر ہم نے تخصص کا
دوسرا سال بھی مکمل کرلیاا مگر بسا آرزو ہا کہ خاک شد ۲۰۱۱ میں تخصص کی تکمیل تو ہوگئی مگر شادی پھر
بھی نہ ہوئی۔
تخصص کہ بعد
مجھے ایک دن جامعہ سے مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب کا فون آیا کہ جاپان اور
ترکی دوجگہ سے علماء مانگے گئے ہیں اگر تم چاہوتو تمہیں ان میں سے کسی جگہ
بھجوادیں۔ میں نے فیصلے کے لئے ایک دن کی مہلت طلب کی۔ چونکہ میں اکلوتا بیٹا ہوں اور والدہ
درسِ نظامی کی جدائی پر بھی نا خوش تھیں، اب تو دور کے ملکوں کا نام سن کروالدہ نے
اجازت دینے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی کہا ہم تمہاری شادی کررہے ہیں ، اللہ تعالی
ٰ یہیں روزی دے دیں گے۔شادی کا نام سن کر ہم اور بھی سُن ہوگئے اور استاد محترم سے
عرض کی کہ والدہ اجازت نہیں دے رہیں۔دل میں لڈو اس بات پر پھوٹ رہے تھے کہ ہماری
شادی ہونے لگی ہے مگرہماری شادی پھربڑے سالا سالی کی شادی کے ساتھ لٹک گئی ۔
یہاں تک کہ ۲۰۱۲
میں ذی الحجہ میں میرے سالا سالی کی شادی تو ہوگئی میری شادی پھر آگے بڑھ گئی ہم نے دل شکستہ ہوکر جماعت میں چلہ
لگانے کا ارادہ کیا جو سال میں بدل گیا ۔ بالآخرتبلیغی سال مکمل ہونے کے بعد ۲۷ نومبر ۲۰۱۳ کو بندہ کی شادی ہوگئی ۔
اب ہماری شادی کے لیے دعا کریں۔۔۔
ReplyDelete