کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا
میرے عزیز بھائی حمایت الدین مرحوم نے
لفظ چراغ سحری کو اپنا تخلص بنایا تھا ۔اور ان کا موجودہ فیس بک پروفائل نام بھی
چراغ سحر تھا۔کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا ۔یہ مقطع میرتقی میر کی ایک غزل کا آخری فقرہ
ہے جس کامطلع کچھ یوں ہے۔ جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا۔ کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا۔ اس لفظ
چراغ سحری کی تشریح وہ یوں کیا کرتے تھے کہ چراغ
سحری استعارہ ہے بے ثباتی ، فانی
اور ناپائیداری سے۔یعنی جو چراغ یا دیا تمام رات جلا ہے اس کا تیل ختم ہونے والا ہے اور کسی بھی گھڑی اس چراغ کا بجھنا ممکن ہے۔آج
ان کی وفات کی خبر سے جوتکلیف ہوئی ہے وہ تو ہے ہی ، مگر حسرت اس بات پر ہے کہ ہم
نے ان کی قدر نہیں کی۔ ساتھ ہی اپنی موت کا بھی استحضار ہورہاہے ، کہ دوستوں کی
موت عزرائیل کی طرف سے پیغام بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ مجھے توبہ نصوحہ کی توفیق
دیں، اور خاتمہ بالخیر اور کلمے والی موت سے نوازیں آمین۔
بھائی حمایت الدین بن غیاث الدین کا استور ، گلگت سے تعلق تھا۔ عصری تعلیم ایف
ایس سی یا بی ایس سی کرکے چارمہینے تبلیغی جماعت میں لگائے اور علم دین حاصل کرنے
کے شوق سے کراچی منتقل ہوگئے۔ پہلے سال اولی اور ثانیہ غالبا بنوری ٹاؤن کی کسی شاخ میں پڑھا تھا ۔ پھر
جامعہ باب الرحمت گلشن حدید میں2003-04 میں داخل ہوگئے ۔ یہیں سے ان کی رفاقت کی ابتداء ہوئی۔ جواب تک قائم تھی۔
میں مدرسے کے ابتدائی سالوں میں بلڈ پریشر لو ہونا، ناک کی
ہڈی بڑھی ہونے اور ٹانسلز کی وجہ سے کچھ تلخ طبیعت ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میرے
ساتھ تکرار(سبق کی دہرائی)کرنے والے ساتھی زیادہ عرصہ نہ رہ پاتے تھے ۔ یہ اس وقت
میرے ساتھی بنے ۔ اور میری ہر طرح کی تلخی کو نا صرف برداشت کیا بلکہ مجھےحالات کا
مقابلہ کرنا سکھایا۔ مچھلی اور انڈے ان کی پسندیدہ خوراک تھی۔ (اللہ تعالی ان کو
جنت میں نعمتوں سے نوازیں) بدھ بازار جو کہ بدھ والے دن جامعہ باب الرحمت کے سامنے
میدان میں لگتا تھا۔ اس میں ایک ہفتے مچھلی کھلانا ا ں کے ذمے ہوتا اور ایک دفعہ
میرے ذمے۔ مچھلی کھاکے مجھے مدرسے بھیجتے اور کہتے میں ابھی آتا ہوں ۔ ایک دفعہ
میں نے چپکے سے نگرانی کی تو ایک کلو اور مچھلی لے کر کھارہے تھے ۔ (اللہ تعالی ان
کو جنت کی مچھلیا ں کھلائے۔ آمین۔)میرا گلاخراب ہوجاتا یہ مجھے گلگتی قہوہ بنا
کےدیتے جس میں بہت ساری چیزوں کے ساتھ کالی مرچی بھی ہوتی تھی اور زبردستی مجھے
پلاتے تھے۔
رابعہ کے سال 2004-05میں شدید بیمار ہوا ۔ میرے جوڑ کام
کرنا چھوڑ گئے اور میں ہلنے جلنے کے قابل بھی نہ رہا۔ جامعہ میں سب ہی ساتھیوں نے
میرا بہت خیال کیا مگر سب سے آگے یہی بھا ئی حمایت الدین تھے۔ پھر مجھے گھر لایا
گیا اور تقریبا چھ ماہ کا عرصہ میں بستر پر پڑا رہا۔ اس دوران یہ چھٹیوں میں گلگت
گئے اور واپسی پر ایک پورا تھیلاجڑی بوٹیوں کا لے کرجس میں سے کوئی ہڈیوں کی دوائی
تو کو ئی گلے کی تو کوئی سکون کی۔ مجھے جھڈو ملنے آئے۔اللہ تعالی ٰ انہیں بہترین
جزائے خیر عطا فرمائے، اور جنت میں ان کو خدام حوروغلمان ملیں ،،اللہ تعالی ان کو
عالی شان محلات میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
ایک طرف خوش مزاج خندہ جبین انسان تھے
، وہیں باہمت محنتی حوصلہ مند اور انتہائی
بے خوف انسان تھے ۔ خود کسی حال میں بھی حوصلہ چھوڑتے نہیں تھے اور دوسروں کو بے
حوصلہ ہونے نہیں دیتے تھے۔ جامعہ میں ایک
دفعہ ایک ساتھی کو جنات کی شکایت ہوئی اور وہ ایسی دلدوز قسم کی چیخیں مارتا تھا
کہ سارا مدرسہ اس سے ڈرتا تھا، مگر انہوں نے اس کے جنات کو بھی ڈرایا ہوا تھا۔ جب
اس پر جنات کا مسئلہ ہوتا اور وہ اس حال میں ان کو دیکھ لیتا تو اس جگہ سے بھاگ
جاتا۔ کراچی کے حالات شدید ترین بگڑے ہوں
تب بھی کسی قسم کا خوف نہیں آنے دیتے ۔ موت کی حقیقت سے ہمیشہ سے واقف تھے۔اللہ
تعالی ان کو آخرت کی پریشانیوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی رضا کے پروانے سے سرفراز
فرمائے۔آمین
اپنے تعلیمی سفر کے دوران اگر انہیں
کسی بات پر افسوس ہوتا تو وہ صرف یہ تھا کہ میں اپنے گھر میں سب سے بڑا بھائی ہوں
۔ مجھے اپنے والد کا کندھا بننا چاہئیے تھا اپنے چھوٹے بھائیوں کے لئے کمانا
چاہئیے تھا۔مگر مدارس کا چونکہ تعلیمی نظام کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ بندہ کوئی
پارٹ ٹائم جاب وغیرہ بھی نہیں کرسکتا اور چوبیس گھنٹے میں سے صرف چند گھنٹے آرام
اور کھانے کے لئے ملتے ہیں ۔ وہ کوئی پارٹ ٹائم جاب بھی نہیں کرسکتےتھے۔ اپنے
چھوٹے بھائیوں سے بے حدمحبت رکھتے تھے۔
پھراسی دوران ان کے چھوٹے بھائی عصری تعلیم کے ساتھ پارٹ ٹائم جاب وغیرہ کرنے لگ
گئے جس پر انہیں بہت فخر ہوتا تھا۔ کسی قوم لسانیت یا کسی اور ایسی وجہ سے کبھی
کسی سے تعصب نہیں برتا۔ ہاں مگر گلگتی کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے اور بس میں
بیٹھے بھی اگر کسی گلگتی سے کو ئی لڑتا نظر آجاتا تو اس کی مدد کےلئے گاڑی سے
اترنے پر بھی آمادہ ہوجاتے۔ جو بات حق سمجھتے بغیر کسی لگی لپٹی کے سادہ سے انداز
میں کہہ دیتے خواہ کسی کو اچھی لگی یا بری۔ اپنے مخالف کی بھی خوبی کو تسلیم کرتے
اور اپنے دوست کی خامی کو بھی بتانے میں کسی ہچکچاہٹ میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اسلام
اور مسلمانوں کی بہتری کی سوچ ہر وقت رہتی۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی ساتھ دینے
والے شخص تھے۔ اللہ تعالی ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
باب الرحمت کے بعد دارالعلوم میں بھی
ساتھی رہے ۔ دارالعلوم میں برمی کالونی کی برکت سے مچھلی سے خوب مستفید ہوئے۔ یہاں
پر بھی ان کی سادہ طبیعت نے انہیں ہر ایک
کا دلعزیز بنائے رکھا۔ میرے لئے ان کی شفقت یہاں بھی میسر رہی ۔ میرے لئے ان کی مصاحبت ہمیشہ ایک تحفظ کا احساس رہی
۔ اللہ تعالی انہیں جنت میں انبیاءصدیقین شہداءاور صالحین کی رفاقت عطا فرمائیں۔ آمین۔
دورہ حدیث سے فراغت کے بعد انہوں نے
مختلف پیشوں سے تعلق رکھا، ان کے بقول انہوں نے سبزی کی ریڑی لگانے میں بھی کوئی
ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، سپلائی کا کام بھی کیا ، مدرسے میں تدریس بھی کی، پشاور
زرعی یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر لیکچرر بھی رہے۔ پھر آن لائن قرآن پڑھانا شروع
کیا ۔ جو آخر تک جاری رہا ، اس کے علاوہ واسکٹ وغیرہ کے کپڑے کی ہول سیل کی دکان
بھی لالوکھیت میں تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کو ئی آدمی نیک نیتی سے روزی
کمانا چاہتا ہے تو اس کے لئے کہیں بھی تنگی نہیں ہے۔ بس انسان کسی کام میں عار نہ
سمجھے۔
2009دورہ حدیث
کے بعد میں نے تخصص فی الدعوہ میں مزید دو سال لگائے۔ اس کے بعد 2011اپنے علاقے میں آگیا ۔ ایم فل کا ہم
دونوں کا ارادہ تھا۔ میں بھی کئی سال سے ارادہ کرتا آرہا تھا۔ اس سال 2019ہمارا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ایم
فل میں داخلہ لیں گے۔ میرا کراچی میں رہنے کا سیٹ اپ بنتے ہوئے کچھ تاخیر ہوگئی
اور میں اس سال بھی اپلائی نہ کرسکا جب کہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کا
عز م کرلیا اور داخلے امتحان میں شریک ہوئے ۔ بڑی بے قراری سے میریٹ لسٹ کا انتظار کیا اور ان کا
نام میریٹ لسٹ میں آبھی گیا۔دوسری طرف سے اجل کا بھی بلاوہ آگیا۔ اور ہارٹ اٹیک کی وجہ
سے آج یکم اگست ۲۰۱۹ بروز جمعرات صبح غالبا نو بجے کے قریب داعی اجل کو لبیک کہا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون اللھم اغفر
لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ و اکرم نزلہ ووسع مدخلہ و اغسلہ بماء الثلج و البرد و
نقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس
میں اگر چندلفظوں میں ان کا تعارف کرواؤں تو وہ
ایک دلیر ،باہمت ، محنتی ، وفادار، پرخلوص، سچااور محبت کرنے والا انسان تھا، جو
دریادل اور مشکلات میں ساتھ ڈٹا رہنےوالا انسان تھا۔ اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس
میں جگہ نصیب فرمائے ، ان کی سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے ۔ آمین۔
وہ شادی شدہ تھے
، ان کے پسماندگان میں ان کی بیوی اور دوبچے بھی شامل ہیں۔ ان کے دوبچے فوت بھی ہوئے ۔ اللہ
تعالی انہیں ان کے لئے ذخیرہ آخرت بنائیں۔ اور ان کے موجود لخت جگروں کو ان کے
لئے رفع درجات والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ان کی نسلوں کی
حفاظت فرمائے اور اسلام کی سربلندی کے لئے قبول فرمائے آمین۔
آخرمیں میرتقی میر کی مکمل غزل پیش
ہے۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری
کا
شرمندہ ترے رُخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں
کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخم جگر داورمحشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینہ کو لپکا ہےپریشان نظری کا
آمد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا
یہ میری کچھ یادداشتیں اپنے جگری دوست
کو خراج تحسین کو پیش کرنے کے لئے محفوظ کررہاہوں ۔ اللہ تعالی اسے بہتر بدلہ عطا
فرمائیے اوراپنی رحمت سے ہمیں جنت الفردوس میں اکٹھافرمائے آمین۔